بدھ 5 فروری 2025 - 18:32
حجۃ الاسلام مولانا سید شمشاد حسین رضوی  کا حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ/ علمی اور تبلیغی  سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو

حوزہ/ عالمی شہرت یافتہ و بین الاقوامی مبلغ حجت الاسلام سید شمشاد رضوی اترولوی (ناروے) نے حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا، اس موقع پر انہوں نے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ اپنے تعلیمی اور تبلیغی سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی، جسے ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، عالمی شہرت یافتہ و بین الاقوامی مبلغ حجت الاسلام سید شمشاد رضوی اترولوی (ناروے) نے حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا، اس موقع پر انہوں نے حوزہ نیوز کے نامہ نگار کے ساتھ اپنے تعلیمی اور تبلیغی سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو کی، جسے ہم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔

علمی سفر

میں شمشاد حسین رضوی، اتر پردیش کے ضلع بلرامپور پور تحصیل کے شہر اترولا میں میری پیدائش ہوئی۔ میری ابتدائی تعلیم ہائی اسکول تک ہوئی، ہمارے استاد محترم، آیت اللہ مولانا سید علی صاحب تقریباً 30 سال سے وہاں کے امام جمعہ تھے، ہائی اسکول کے بعد میں نے دینی تعلیم کا آغاز کیا اور تین سال بعد انٹر میڈیٹ کیا۔ پھر میں وثیقہ عربی کالج فیض آباد چلا گیا، جہاں سے میں نے مولوی اور عالم فاضل کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد میں جامعہ ناظمیہ، لکھنؤ چلا گیا، جہاں میں نے قابل کلاس میں داخلہ لیا۔ وہاں میں نے میتھمیٹکس، الجبرا اور فارسی پڑھانا شروع کیا۔ ساتھ ساتھ میں خود بھی پڑھتا رہا اور پڑھاتا بھی رہا اور دوسرے سال میں وہاں کا استاد رسمی بن گیا۔ 1979 میں میں نے ممتاز الافاضل کا امتحان فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔ اسی دوران میں نے شیعہ ڈگری کالج سے بی اے کیا، جو میں نے فرسٹ ڈویژن میں پاس کیا۔

جب انقلاب اسلامی ایران کامیاب ہوا تو میرے استاد محترم، حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا مجتبیٰ علی خان ادیب الہندی، نے مجھے ایران جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ ستمبر 1980 میں میں قم آگیا اور وہاں اپنی تعلیم کا نیا سفر شروع کیا۔ اگرچہ میں ہندوستان میں لمعہ، معالم اور رسائل و مکاسب پڑھ چکا تھا، لیکن میں نے ایران میں دوبارہ شروع سے تعلیم حاصل کرنا شروع کی۔ دو سال بعد، مجھے آیت اللہ سید ہاشم بوشہری، جو اس وقت امام جمعہ ہیں، ان کے فلسفے کے درس میں شرکت کا موقع ملا۔

اس زمانے میں، جیسا کہ آج کل قم المقدسہ کے مدرسہ المہدیؑ میں فارسی کی تعلیم کا سلسلہ ہے، اس وقت ایسا نہیں تھا۔ ہندوستان، پاکستان، اور بنگلہ دیش سے آنے والے طلبہ کو پڑھانے کے لیے مجھے آیت اللہ حسینی بوشہری نے دعوت دی۔ اورچار پانچ ہندوستانی اور پاکستانی طلبہ تھے جو تدریس کرتے تھے، 12 طلبہ بنگلہ دیش سے تھے، جو سب سنی مذہب سے تعلق رکھتے تھے، انہوں نے کہا کہ وہ امام خمینیؒ کے انقلاب سے متاثر تو ہیں ، لیکن ہم فقہ جعفری نہیں پڑھنا چاہتے۔ اس وقت میں نے ایک سال تک ان کو فقہ خمسہ پڑھائی اور امتحان بھی لیا۔

تصاویر/ حجۃالاسلام والمسلمین مولانا سید شمشاد حسین رضوی کا حوزہ نیوز ایجنسی کے مرکزی دفتر کا دورہ

تبلیغی سفر

اس زمانے میں دفتر تبلیغات کے بین الاقوامی شعبے نے مجھے بلایا اور کہا کہ ناروے سے دعوت نامہ آیا ہوا ہے، کیا آپ محرم میں جائیں گے؟۔ میں نے کہا کہ جیسے آپ لوگ کہیں، ویزہ لگا اور ہم دو ماہ کے لیے وہاں گئے، یہ 1986 کی بات ہے۔ دو ماہ کے ویزہ پر میں نے وہاں نماز جمعہ، درس، اور موعظہ شروع کیا۔ وہاں پہلے کوئی عالم دین نہیں تھا۔ اس سے پہلے دو افراد پاکستان سے گئے تھے، لیکن وہ وہاں کے مومنین مطمئن نہیں تھے۔ جب میں نے کام شروع کیا، تو ان کا اصرار بڑھ گیا کہ میں وہاں رک جاؤں۔ میرے ذریعے وہاں شریعت کا کام شروع ہوا۔ محرم میں مجلسیں تو ہوتی تھیں، لیکن باقاعدہ جماعت، بچوں کی تعلیم، جوانوں کی تربیت، اور منظم پروگراموں کا آغاز ہوا۔ الحمدللہ، شیعہ پروگرام شروع ہوئے۔

دو سال مسلسل ناروے میں خدمت کی اسکے بعد ایران آنا ہوا ، اس کے بعد ہندوستان گئے اور دوبارہ ناروے بھیج دئے گئے، پھر باقاعدہ کام شروع ہو گیا ۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمشاد حسین رضوی  کا حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ/ علمی اور تبلیغی  سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو

ناروے میں سیرت کانفرنس اور شیعہ سنی اتحاد کا عملی مظاہرہ

ناروے میں سیرت کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں مختلف مذاہب کے افراد نے شرکت کی۔ ہمیں بھی عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلوس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ اسی دوران رؤیتِ ہلال کمیٹی تشکیل دی گئی، جس کے قیام کے بعد ہم مل کر عید اور رمضان کے چاند کا اعلان کرنے لگے۔

ہمارا اہل سنت کے پروگراموں میں جانا اور ان کا ہمارے پروگراموں میں آنا ایک نئے دور کی شروعات ثابت ہوا۔ اس کے نتیجے میں، بین المذاہب ہم آہنگی اور مذہبی رواداری کو فروغ ملا۔

بعد ازاں، ہم نے ایک میگزین سفینہ کے نام سے شائع کیا، جو تین زبانوں پر مشتمل تھا۔ یہ میگزین یورپ، امریکہ اور افریقہ میں کافی مقبول ہوا، اور اس جیسی کوئی اور اشاعت موجود نہیں تھی۔ اس میں مرحوم شہید صفت جعفر کا نمایاں کردار تھا، جو پروف ریڈنگ سمیت دیگر امور انجام دیتے تھے۔ یہ میگزین تین سال تک جاری رہا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمشاد حسین رضوی  کا حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ/ علمی اور تبلیغی  سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو

مرکز توحید کا قیام

1994 میں ہم نے مرکز توحید قائم کیا، جہاں عراقی، عربی، لبنانی، پاکستانی اور دیگر قومیتوں کے افراد آتے تھے۔ اس وقت ہندوستانی افراد کی موجودگی کم تھی۔ یہ مرکز اردو، عربی اور فارسی زبانوں میں اپنی سرگرمیاں انجام دیتا تھا۔ ہمارا ہمیشہ یہ اصول رہا کہ ہم کسی خاص قوم، نسل یا علاقے کے لیے کام نہیں کرتے بلکہ تمام انسانیت کے لیے یکساں خدمات فراہم کرتے ہیں۔

حجۃ الاسلام مولانا سید شمشاد حسین رضوی  کا حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ/ علمی اور تبلیغی  سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو

یہ مرکز کرائے کی جگہ پر قائم تھا، مگر کرائے پر مرکز چلانے میں دشواری یہ ہوتی ہے کہ ہر دو سے تین سال بعد جگہ تبدیل کرنی پڑتی ہے۔ اس ضرورت کے پیش نظر، سال 2000 میں زمین خریدی گئی، اور 2011 میں اس کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سنگِ بنیاد کو آیت اللہ اعرافی نے رکھا۔

ہمارے فرزند سید حسن عسکری رضوی جب آیت اللہ اعرافی سے ملے تو انہوں نے انہیں ایران بھیجنے کی تجویز دی۔ وہاں انہوں نے دینی تعلیم حاصل کی اور پھر ناروے واپس آ کر دین کی خدمت انجام دی۔ ماشاءاللہ، 2024 میں ہمارے فرزند نے 25 افراد کو شیعہ مذہب قبول کروایا۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمشاد حسین رضوی  کا حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ/ علمی اور تبلیغی  سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو

مختلف زبانوں میں درس و تدریس اور تبلیغی سرگرمیاں

محافل و مجالس اپنی جگہ، مگر درس سب سے زیادہ مقبول ہوا، کیونکہ یہ نارویجن زبان میں دیا جاتا تھا۔ اس وجہ سے مختلف زبانوں اور قومیتوں سے تعلق رکھنے والے افراد بآسانی اس میں شرکت کر سکتے تھے۔

ناروے میں شیعہ آبادی تقریباً 25 سے 30 ہزار کے قریب ہے۔ مسجد توحید میں محرم الحرام کے دوران روزانہ چار سے پانچ پروگرام منعقد ہوتے ہیں، جن میں بیک وقت 400 سے 500 افراد شرکت کرتے ہیں۔ اردو، فارسی اور عربی زبانوں میں علیحدہ علیحدہ مجالس منعقد کی جاتی ہیں۔

ہم نے ناروے کے بچوں کو پینٹنگ اور نقاشی کے ذریعے کربلا کی اہمیت اور پیغام سکھانے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ علاوہ ازیں، سال میں ایک بار علمی اور تفریحی سفر کا اہتمام کیا جاتا ہے، جس میں تقریباً 150 افراد شریک ہوتے ہیں۔ اس دوران تین وقت کے کھانے، رہائش اور دیگر ضروری سہولیات فراہم کی جاتی ہیں۔ یہ پروگرام بہت کامیاب ثابت ہوا اور بڑے پیمانے پر اس کا خیرمقدم کیا گیا۔

اسی طرح، حج کی تربیت کے لیے بھی عملی طور پر عرفات، منیٰ اور دیگر مناسکِ حج کے اعمال سکھائے جاتے ہیں۔

شیعہ سنی اتحاد اور تبلیغی چیلنجز

ناروے میں شیعہ سنی اتحاد کا عملی نمونہ پیش کیا گیا، جسے دیکھ کر لندن اور امریکہ سے آنے والے مہمان حیران ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے کہیں اور ایسا اتحاد نہیں دیکھا۔ یہاں شیعہ سنی ایک دوسرے کے پروگراموں میں شرکت کرتے ہیں اور باہمی احترام کے ساتھ ملتے ہیں۔

ناروے کے عصری تعلیمی اداروں میں بچوں کو فحاشی اور عریانیت کی تعلیم دی جاتی ہے، جو تشویشناک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ مومنین کے بچوں کے لیے ایک خاص اسلامی اسکول بنایا جائے، جہاں وہ پاکیزہ ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔

شیعیت کو درپیش مسائل اور ان کا حل

یورپ میں کئی جگہوں پر علماء کرام کی کمی ہے۔ بلکہ ایران کے بعض دور دراز علاقوں میں بھی مبلغین کی قلت ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے ہم نے کونسل آف علمائے امامیہ شینگن کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ ابتدا میں ہم نے علماء سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، پھر سویڈن میں اکٹھا ہو کر گفتگو کی کہ شیعوں کے لیے کیا اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

اس اجلاس میں یہ طے پایا کہ ہر تین ماہ بعد کسی ایک ملک اور شہر کا انتخاب کیا جائے، جہاں علماء جمعہ کی شام پہنچیں، اور ہفتہ و اتوار کو مومنین کی ضروریات کو سمجھنے کے لیے قیام کریں۔ اگر کسی علاقے میں کتابوں کی ضرورت ہو تو انہیں فراہم کی جائیں۔

البتہ، اس مشن میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یورپ میں اسلاموفوبیا عروج پر ہے، اور مومنین کو اس کے باعث پریشانیوں کا سامنا ہے۔ بعض اوقات علماء کو اپنے تبلیغی دورے بھی منسوخ کرنے پڑے۔

مسجد توحید ناروے میں شیعہ اسلام کی نمائندگی کر رہی ہے اور تبلیغِ دین کا اہم مرکز ہے۔

ناروے میں تبلیغ کے لیے طالب علموں کی تیاری

جو طلبہ ناروے جیسے ممالک میں تبلیغ کے لیے آنا چاہتے ہیں، انہیں چند اہم نکات پر عمل کرنا چاہیے:

1. خالص نیت: علم کو خالصتاً اللہ کی رضا کے لیے حاصل کریں۔ دولت یا شہرت کے لیے نہ پڑھیں۔

2. وقت کا صحیح استعمال: وقت ضائع کیے بغیر علم حاصل کریں اور گہری توجہ سے دروس میں شرکت کریں۔

3. عملی زندگی میں دین پر عمل: ایک مبلغ کو خود بھی دیندار اور باعمل ہونا چاہیے۔

4. زبان پر عبور: عربی اور انگریزی زبان میں مہارت حاصل کریں، تاکہ مقامی افراد سے بہتر رابطہ ممکن ہو۔

5. ڈیجیٹل مہارت: کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کے استعمال میں مہارت ضروری ہے، تاکہ تبلیغی کام کو جدید ذرائع سے مؤثر بنایا جا سکے۔

6. زمانے کے حالات سے واقفیت: مبلغ کو زمانے کے تقاضوں اور معاشرتی تبدیلیوں کا ادراک ہونا چاہیے۔

7. مقامی علماء سے مشورہ: تبلیغ کے لیے کسی علاقے میں جانے سے پہلے وہاں کے علماء سے مشورہ کیا جائے اور مقامی حالات کو سمجھا جائے۔

حجۃ الاسلام والمسلمین مولانا سید شمشاد حسین رضوی  کا حوزہ نیوز ایجنسی کا دورہ/ علمی اور تبلیغی  سفر کے بارے میں تفصیلی گفتگو

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha